ہیتلھ ڈسک،29اگسٹ(اردوپوسٹ) مائکروپلاسٹکس کی موجودگی پینے کے پانی میں تیزی سے بڑھتی جارہی ہے- لیکن پلاسٹ کی بوتل میں پینے کے پانی سے کینسر ہوتا ہے، اسکے ابھی تک پختہ ثبوت نہیی ملے ہیں- حالانکہ اسکے ساتھ ہی اس موضوع پر ڈبلیو ایچ او کی طرف سے جاری نئی رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ پلاسٹ کا کم استعمال کرنا چاہیئے- تاکہ کم آلودگی ہو، عالمی ادارہ صحت کے مطابق پلاسٹک ماحول میں کس طرح جسم کو متاثر کرتا ہے، اسے سمجھنے کے لیے اور زیادہ ریسرچ کی ضرورت ہے-
5 ایم ایم سے کم سائز والے ہوتے ہیں مائیکرو پلاسٹکس
مائیکرو پلاسٹکس کی کوئی قعطی تعریف نہیں ہے- لیکن ڈبلیو ایچ او کے مطابق مائیکرو پلاسٹک کے بہت چھوٹے ٹکڑکے یا ریشے ہوتے ہیں، جنکا سائز 5 ایم ایم سے کم ہوتا ہے- حالانکہ پانی میں ذرات 1 ایم ایم چھوٹے بھی ہوسکتے ہیں- حقیقت میں 1 ایم ایم سے چھوٹے زرات کے نینو پلاسٹک کہا جاتا ہے-
اتنے بڑے مائیکرو پلاسٹک جسم میں نہیں جاتے
رپورٹ کے مطابق 150 مائیکرو میٹر (ایک بال کی موٹائی) سے بڑے مائیکرو پلاسٹکس کے جسم میں جانے کی گنجائش نہ کے برابر ہے- وہیں نینو سائز کے پلاسٹک اور بہت چھوٹے مائیکرو پلاسٹک زرات کے جسم میں جانے کا امکان ہے- لیکن انکے بھی جسم کو نقصان پہنچانے والے مقدار میں جمع ہونے کا امکان نہیں ہے-