اسٹار، سپر اسٹار اور میگا اسٹار جیسی چیزوں پر یقین نہیں کرتے نوازالدین صدیقی

فلمی ڈسک، 25نومبر(اردو پوسٹ انڈیا ڈاٹ کام) نواز الدین صدیقی نے ’سرفروش‘ شول، اور منا بھائی ایم بی بی ایس جیسی فلموں میں چھوٹے کرداروں سے اپنے کیریئر کی شروعات کی تھی۔ خود کو ثابت کرنے اور اپنے من مطابق کردار پانے کے لیے انہیں 12 سال جدوجہد کے دور سے گذرنا پڑا۔ یہ انوراگ کیشپ کی فلم گینگس آف واسے پور تھی، جس نے انکی تقدیر بدل کر رکھ دی اور تب سے اب تک بدلا پور ،ریس، رمن راگھو 2.0 ، ٹھاکر، منٹو، اور اسکیئرڈ گیمز ، جیسی کئی پروجیکٹس میں انہوں نے اپنی اداکاری کا لوہا منوایا۔
آج نواز الدین صدیقی کے کئی مداح ہیں، لیکن اسکے باوجود وہ خود کو اسٹار کہلانا پسند نہیں کرتے ہیں۔ انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا، مجھے خود کو اسٹار کہنا نا پسند ہے۔ میں ایسے تمغوں میں یقین نہیں رکھتا ہوں، اسٹار سپر اسٹار یا میگا اسٹار کے طور پر پہچانے جانے کے بعد انڈسٹری میں فنکاروں کو دقیانوسی تصور کیا جاتا ہے اور انہیں ایک ہی جیسا کام کرنے کو دیا جاتا ہے۔

نواز الدین نے آگے کہا، سچا فنکار وہی ہوتا ہے جو مختلف کردار کو نبھاتا ہے، لیکن اگر آپ اسٹار کیٹیگری میں پھنس جاتے ہیں تو آپ حد سے باہر ہوجاتے ہیں، اسٹار اور سپر اسٹار جیسی چیزیں صرف مارکیٹنگ کی حکمت عملی ہے ، اس لیے مجھے خود کو اسٹار کہلوانا پسند نہیں ہے۔ نواز کا یہ بھی ماننا ہے کہ یہ تمغے ایک فنکار کو ترقی کو روک دیتا ہے۔

انہوں نے اس بارے میں کہا، آرام دہ زون میں پھنس کر نہیں رکپنا چاہتا، ایک فنکار کے لیے یہ بے حد ضروری ہے کہ وہ اپنے آرام دہ زون سے باہر جاکر کچھ کریں۔ میں میں ورسٹائل بننا چاہتا ہوں، اگر میں خٰد کو ایک اسٹار سمجھنے لگا تو مجھ میں گھنڈ آسکتا ہے اور یہ میرے صلاحیتوں اور ترقی میں روکاوٹ کرسکتا ہے۔ منٹو، ٹھاکرے، اور اسکیئرڈ گیمز میں ایک کے بعد ایک سنجیدہ رول کو نبھانے کے بعد 45 سالہ اداکارہ رومانٹک کامیڈی میں ہاتھ آزمانے کی کوشش کی۔ حال ہی میں وہ کامیڈی ڈرامہ موتی چور چکنا چور میں نظر آئے۔ آنے والے وقت میں وہ بولے چوڑیاں میں نظر آئیں گے۔