ہیلتھ ڈسک،(اردو پوسٹ انڈیا ڈاٹ کام) بچوں اور بڑوں میں الیکٹرانکس آلات کے لگاتار استعمال کو روکنے کے تجرباتری طریقے بتاتے ہوئے ماہر نفسیات نے آگاہ کیا ہے کہ ڈیجیٹل لت اصل ہے اور یہ اتنی ہی خطرناک ہوسکتی ہے جتنی کی نشے کی لت۔
یہ انتباہ پچھلے ہفتے ایک ماں نے ٹک ٹاک کھیلنے سے روکنے پر تامل ناڈو میں 24 سالہ نوجوان نے خودکشی کرلی اور مدھیہ پردیش میں پچھلے مہینے لگاتار چھ گھنٹے پب جی کھیلنے والے ایک طالب علم کی دل کے دورے سے موت ہونے کی خبروں کے بعد آئی ہے۔
ماہرین نے کہا کہ ڈیجیٹل لت سے لڑنے کے لیے سب سے ضروری بات اس لت کے بڑھنے پر اسکا احساس کرنا ہے۔
فورٹس ہیلتھ کیئر کے دماغی صحت اور اپلائیڈ سائنسز کا شعبہ کے ڈائریکٹر سمیر پاریخ نے میڈیا سے کہا، لوگوں کے لیے کام، گھر کے اندر زندگی، باہر کے تفریح اور سماجی مصروفتیات کے درمیان توازن برقرار قائم رکھنا سب سے اہم کام ہے۔ انہیں یہ یقینی کرنا ہے کہ کافی نیند لے رہے ہیں۔ یہ بہت ضروری ہے۔
سمیر نے یہ بھی کہا کہ بالغوں کے لیے چار گھنٹوں کے ڈیجیٹل ڈیٹوکس ضرور اپنانا چاہیئے۔ اس وقفہ میں انہیں اپنے فون یا کسی بھی ڈیجیٹل آلات کا استعمال نہیں کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کو ان چار گھنٹوں میں پریشانی ہوتی ہے تو یہ پریشان کرنے کی بات ہے۔
دہلی میں واقع اندراپراستھا اپولو اسپتال کے شعبہ نفسیات کے سینئر کنسلٹنٹ سندیپ وہرہ نے کہا، آلات (گجیٹ) کے عادی لوگ ہمیشہ گجیٹ کے بارے میں سوچتے ہیں یا جب وہ ان کا استعمال نہیں کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو انہیں بے خوابی یا چڑچڑاپن ہونے لگتا ہے۔
انہوں نے کہا ، ڈیجیٹل لت کسی بھی دیگر لت جتنی خراب ہے۔ تو اگر آپ کو ڈیجیٹل لت ہے، تو یہ اشارے ہیں کہ آپ اپنے روز مرہ کی زندگی سے دور جارہے ہیں۔ آپ ہمشیہ اسکرن پر منحصر ہیں۔
ایسے لوگ ذاتی حفظان صحت کو نظر انداز تک کرسکتے ہیں۔ وہ سماج، اپنے خاندان سے بات کرنا بھی بند کردیتے ہیں اور اپنی ذمہ داریوں کے بارے میں سوچنا یا اپنے باقاعدہ کام کرنا بھی بند کردیتے ہیں۔
انہوں نے کہا، ایسے لوگوں میں افسردگی ، اضطراب ، اشتعال انگیزی ، بے خوابی ، چڑچڑاپن کے ساتھ ساتھ دیگر چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے میں پریشانی بھی ہوسکتی ہے۔
سندیپ وہرہ نے مشورہ دیا کہ لوگوں کو جب لگے کہ انکا بچہ اسکرین پر زیادہ وقت گذار رہا ہے تو انہیں سب سے پہلے اپنے بچے سے بات کرنی چاہیئے اور انہیں ڈیجیٹل گجیٹ سے رابطہ کم کرنا چاہیئے۔